نوشہرہ کا شیر جس نے پاک فوجی سربراہ بنانے کی جناح کی پیش کش بھی ٹھکرائی:

219
بریگیڈیئر محمد عثمان
اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے ساتھ نوشہرہ کا شیر

وہ صرف 12 سال کا تھا جب گاو ¿ں میں ایک کنویں میں ڈوبتے بچے کی جان بچانے کے لئے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر کنویں میں چھلانگ لگا دی تھی۔ نہ صرف یہ 35 سال کی عمر میں کسی ملک نے اسے اپنی فوج میں شامل ہونے اور بعد میں فوجی سربراہ بننے کا وعدہ کیا تھا ، لیکن اس نے اسی ملک کی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے خود کو قربان کرنا بہتر سمجھا۔ انھیں ‘ نوشہرہ کا شیر’ کا خطاب ملا۔ یہاں ذکر کیا جارہا ہے ہندوستانی فوج کے لئے فخر بننے والے شہید بریگیڈیئر محمد عثمان کا ۔جنھوں نے آج ہی کے دن 3 جولائی 1948 کو شہادت حاصل کی تھی۔ بریگیڈیئر محمد عثمان ، جسے بعد ازاں بہادری کے لئے دوسرے بڑے اعزاز ‘مہا ویر چکر’ سے نوازا گیا ۔بریگیڈیئر محمد عثمان حقیقی حب الوطنی اور سیکولرازم کی ایک عمدہ مثال ہیں۔ صرف یہی نہیں ، جنگ کے میدان میں شہید کا درجہ حاصل کرنے والے بریگیڈیئر عثمان ہندوستانی فوج کے اب تک کے اعلی درجے کے افسر ہیں۔

بریگیڈیئر محمد عثمان
نوشہرہ کی لڑائی کی ایک تصویر

پاک فوج کی پیش کش:

15 جولائی ، 1912 کو اترپردیش کے اس وقت کے بی بی پور (موجودہ مﺅ) میں پیدا ہوئے بریگیڈیئر محمد عثمان ہندوستانی فوج کے ان مسلم افسروں میں سے ایک تھے جنہوں نے مذہب کے نام پر بانٹے گئے اس ملک پاکستان کی فوج میں شامل ہونے سے انکارکر دیا تھا۔ مذہب سے پہلے ملک یا پھر ملک ہی مذہب ہے جیسی سوچ کے مالک بریگیڈیئر محمد عثمان کی رگوں میں خون سے زیادہ حب الوطنی بہتی ہے۔ وہ بانی پاکستان ، مسلم لیگ کے رہنما اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح کی طرف سے آئے لالچ بھرے پیغام کو مکمل طور پر مسترد کر چکے تھے ، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر محمد عثمان پاک فوج کا حصہ بن جائیں گے تو ایک دن ان کو پاک فوج کا سربراہ بنا دیا جائے گا۔

دباو ¿ میں نہ آئے:

در حقیقت اس وقت بریگیڈیئر عثمان 10 بلوچ رجمنٹ میں تھے اور اس کی 14 بٹالین کو کمانڈ کرررہے تھے۔ تقسیم ہند کے دوران بلوچ رجمنٹ پاک فوج کا حصہ بن گئی تھی۔ ایک مسلمان افسر ہونے کے ناطے بریگیڈیئر محمد عثمان پر بھی پاکستانی فوج میں شامل ہونے کا زبردست دباو ¿ تھا لیکن انہوں نے خود کو اس دباو ¿ سے باہرنکال لیاتھا ۔ اسی کے ساتھ ان کا تبادلہ بلوچ رجمنٹ سے ڈوگرہ رجمنٹ کر دیا گیا۔

زمین پر سو نا:

یہی نہیں ، 1947 میں پاکستان نے پہلے مسلح قبائلی لوگوں کو ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجا ، اور پھر ان کی حمایت کرتے ہوئے پاک فوج نے 25 دسمبر 1947 کو جھنگر پر قبضہ کرلیا۔ بریگیڈیئر محمد عثمان ، جو اس وقت 77 پیراشوٹ بریگیڈ کو کمانڈ کر رہے تھے ،ان کو 50 ویں پیرا کمانڈکرنے کیلئے جھنگر بھیج دیا گیا۔ اسی دن محمد عثمان نے قسم کھائی کہ جب تک کہ جھنگر سے پاک فوج کو پیچھے نہیں ڈھکیل دیں گے اور جھنگر کو ہندوستان کو واپس نہیں دلا دیں گے تب تک چین سے نہیں سوئیں گے ۔اور سچ میں وہ پر سکون نہیں سوتے تھے۔ وہ بستر پر نہیں بلکہ زمین پر ایک چٹائی پر سوتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہے تو ان کا جواب یہ تھا کہ جب تک پاک مقبوضہ کشمیر کے اس حصہ کو ہم واپس نہیں لے لیں گے تب تک وہ بستر پر سو نہیں سوئیں گے۔یہ قسم پوری کرنے میں ان کوتین ماہ لگے ، لیکن اس قسم کو پورا کرنے میں انہیں اپنی سب سے بڑی قربانی دینا پڑی۔

بریگیڈیئر محمد عثمان
پیراٹروپر نے بریگیڈیئر عثمان کو
سلام پیش کیا

نوشہرہ کاشیر:

جنوری اور فروری 1948 میں بریگیڈیئر عثمان نے نوشہرہ اور جھنگر میں پاکستانی فوج پر زبردست حملے کئے۔ یہ دونوں ہی جگہیں بہت اہمیت کی حامل تھیں۔ پاکستان کو نوشہرہ کو بچانے کے لئے جنگ کے دوران زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔ اس جنگ میں ہندوستان کے 35 فوجی مارے گئے تھے، لیکن پاکستان کے تقریباً 1000 فوجی مارے گئے اورتقریباً 1000 زخمی بھی ہوئے۔ اس جنگ کے بعد بریگیڈیئر عثمان کا نام ہی پڑ گیا’ نوشہرہ کا شیر‘۔

پاکستان نے رکھا انعام :

نوشہرہ کی شکست سے پاکستان اتنا بوکھلا گیا تھا کہ اس نے بریگیڈیئر عثمان کے سر پر انعام رکھ دیا۔ان نے اعلان کیا کہ جو بھی بریگیڈیئر عثمان کا سر لائے گا اسے 50000 روپے انعام دیا جائے گا۔اتنی شہرت ملنے کے باوجود بھی بریگیڈیئر عثمان اپنے عزم پر قائم رہے۔

بریگیڈیئر محمد عثمان
نوشہرہ کا شیر

اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل کے ایم کیریپپا (جو بعد میں ہندوستان کے فوجی سربراہ بنے اورریٹائرمنٹ کے بعد فیلڈ مارشل بھی بنے) نے ویسٹرن کمانڈ کا چارج سنبھال لیا۔ پھر ان کی نگرانی میں فوج نے فروری 1948 کے آخری ہفتے میں دو آپریشن شروع کئے۔ ایک تھا جھنگر اور دوسرا آپریشن تھا پونچھ۔ اس بار ہندوستانی فوج کی 19 ویں انفنٹری بریگیڈ شمالی پہاڑی کی طرف آگے بڑھی جبکہ 50 پیرا بریگیڈ نے اس پہاڑی علاقے کو دشمن سے خالی کرایا جو نوشہرہ جھنگر روڈ کے جنوب میں تھا۔ آخر کار جھنگر سے دشمن کو پسپا کردیا گیا اور ہندوستانی فوج نے اپناقبضہ جمالیا۔ پاکستان نے جھنگر میں اپنی فوج کو باقاعدہ میدان جنگ میں اتار دیا۔ یہ مئی 1948 کی بات ہے۔ اس بار پاکستان اتنا بوکھلا گیا کہ اس نے جھنگر میں زبردست بمباری شروع کردی۔ اس کے باوجود بریگیڈیئر عثمان نے جھنگر کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا حالانکہ اس طرح کے ایک اور مقابلے میں بم دھماکے کے دوران ایک حملے میں وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

شہیدکا درجہ :

حکومت نے انھیں شہید کا درجہ دیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور ان کی کابینہ کے ممبران بھی انھیں آخری سفر پر روانہ کرنے کیلئے شریک ہوئے تھے۔اپنی سالگرہ سے 12 دن پہلے شہید ہوئے بریگیڈیئر عثمان کے آخری الفاظ یہ تھے کہ بھلے ہی میری جان چلی جائے مگر وہ علاقہ دشمن کے قبضہ میں نہیں جانا چاہئے۔ اس بہادر بریگیڈیئر کو ریاستی اور فوجی اعزاز کے ساتھ بھیجنے کے ساتھ حکومت نے مہاویر چکر دینے کا اعلان کیا۔

بریگیڈیئر محمد عثمان
جھنگر میں بریگیڈیئر عثمان کا مجسمہ۔

فوج میں کریئر:

مارچ 1935میں برطانوی دور حکومت کے دوران فوج میں شامل ہوئے محمد عثمان کو اپریل 1936میںلیفٹیننٹ بنایا گیااور 31اگست 1941میں ترقی دے کر کیپٹن کا عہدہ دیا گیا۔