دسمبر کا مہینہ یہ ایک سرد سیاہ رات تھی اورہند پاک سرحد پر دونوں طرف سے فائرنگ ہو رہی تھی۔ روشنی صرف ایک لمحے کے لیے اس وقت محسوس ہوتی تھی جب بندوق سے مسلسل فائرنگ ہو رہی ہو۔ خون جما دینے والی سردی میں بھی یہ منظر اچھے اچھے لوگوں کے پسینے نکالنے کے لیے کافی تھا جسے 21 سالہ محمد افضل بھٹ اور اس کے کئی ساتھی فوجیوں نے پہلی بار دیکھا تھااور محسوس کیا۔ افضل اور اس کے ساتھی بٹالک میں تعینات جموں و کشمیر ملیشیا (اب جموں کشمیر لائٹ انفنٹری) کے جوان تھے۔
بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر کرنل اے جی مونیا والا نے اس الفا کمپنی کو اسالٹ لائن بنا کر آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ حالت یہ تھی کہ کسی کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ نہ پہاڑی کی چوٹی پر موجود پاکستانی فوجیوں کو اور نہ ہی ان کی طرف خاموشی سے آگے بڑھتے ہوئے ہندوستانی فوجیوں کو۔ دونوں ملکوں کی سرحد کے طور پر نظر آنے والا کچھ تھا تو وہ تھا ایک پہاڑی نالا۔ اس کی آڑ میں چلتے چلتے ہلکی سی آواز ہوئی نہیں کہ پہاڑی پرموجود دشمن کی فائرنگ اسی سمت ہونے لگتی تھی۔دشمن کی نظر سے بچتے بچاتے ہوئے ہندوستانی فوجی گھٹنوں اور کہنیوں پر رینگتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ، لیکن رات کے وقت صورتحال اور بھی خطرناک ہوجاتی تھی ۔ پہاڑی کی آڑ لے کر نالے کے کنارے کنارے آگے بڑھتے وقت خطرہ تب اور بڑھ جاتا تھا جب اندھیرے میں پتھرکے ساتھ ٹھوکر لگنے پر پتھر لڑھک جایا کرتا تھا۔ ذرا سی حرکت یا پتھروں کی آواز سن کر دشمن کی بندوق کی گولیاں اور مارٹر گولے اسی سمت برسنے لگتے تھے ۔ جب ضرورت محسوس ہوتی تودشمن کو حکمت عملی کے مطابق جواب دیاجاتا تھا کیونکہ دشمن فوجی حملے کے نقطہ نظر سے ہم سے بہتر پوزیشن میں تھے۔
اور جب داہنی پسلی کے ٹھیک نیچے لگی گولی آرپار
کبھی آہستہ اور کبھی تیز ، لیکن دشمن کی نظر بچا کر ان کا مقصد آگے بڑھتے رہنا تھا ۔ ایسے ہی حالات کے دوران نہ جانے کب دشمن کی بندوق سے گولی آئی جس نے محمد افضل کو نشانہ بنایا۔داہنی طرف سے پہاڑی سے برسی ان گولیوں سے ایک اس کی داہنی طرف کی پسلیوں کے بالکل نیچے لگی اور پیٹھ سے باہر جا نکلی ۔ ایک لمحے کے لیے توسمجھ ہی نہیں آیا کہ ہواکیا ہے۔ چند مزید قدم بڑھانے کے بعد افضل رک گیا۔ اب آگے بڑھنا ممکن نہیں تھا۔
سپاہی محمد افضل کا ہاتھ اپنی کی کمر کی طرف گیا ، لیکن اسے ڈر تھا کہ کہیں ہاتھ لگنے سے جگر یا آنتیں باہر نہ نکل آئیں ۔ اسی لیے افضل بھٹ نے ان پر توجہ نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ افضل نے ایک بڑے چٹان نماپتھر کی آڑ لے لی ۔ پتھر کی شکل کسی حد تک غار جیسی تھی۔ لائٹ مشین گن قریب ہی میںتھی اور وہاں تقریبا 5000 گولیوں سے بھرا ہوا ایک صندوق بھی تھا۔ افضل نے وہیں پر مورچہ سنبھال لیا کیونکہ تمام ساتھی پیش قدمی کر رہے تھے ، اس لیے انہیں آگے بڑھنا تھا۔
ساتھیوں نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا
گولی لگنے کے بعد افضل کی حالت دیکھ کر کچھ ساتھیوں نے اسے مردہ سمجھ لیاتھا۔ ایسی صورت حال نہیں تھی کہ اس وقت کسی مردہ یا زخمی ساتھی کے علاج کے بارے میں سوچا جا سکے۔ افضل کو بالکل یاد نہیں تھا کہ وہ کتنے دن پتھر کے نیچے بھوکا پیاسا پڑا رہا۔ جنگ پر جانے سے پہلے بیگ میں رکھے گئے کچھ شکرپارے ختم ہو چکے تھے۔ پانی بھی ختم ہو چکا تھا۔ بھوک اور پیاس کی حالت میں کبھی کبھی وہ بیہوش ہو جاتارہا ہوگا۔جب برداشت نہیں ہو سکا تو کسی طرح رینگ کر بندوق کے سہارے پتھر کے نیچے سے باہر آیا اورجمی ہوئی برف کو ہی کھانا چاہا لیکن کیا ! جیسے ہی برف منہ میں رکھی وہ باہرالٹ دی۔ گولہ بارود اس قدر تھا کہ اس کا ذائقہ اور بو برف میں جذب ہو گئی تھی ۔ افضل شاید پھر بیہوش ہو گیا۔ کئی ساتھیوں نے یقین کر لیا کہ افضل اللہ کو پیارا ہو گیا ۔ محمد افضل کو ٹھیک سے یاد نہیں کہ اس نے کتنے دن اس حالت میں گزارے ہوں گے۔ جب پوچھا گیا تو اس نے کہا ، “شاید 10-12 دن”۔
کہیں آنتیں یا گردے ہی باہر نہ آ جائیں
مجھے تو بس یہ ڈر تھا کہ اگر میں اپنے طور پر کچھ کرنا چاہوں جہاں سے خون نکل رہا ہوتو کہیں ایسا نہ ہو کہ آنتیں یا گردے نکل آئیں۔ جب میں نے اپنے دائیں پاو ¿ں سے اپنا بوٹ اتارا تو یہ خون سے بھرا ہوا تھا جو میری کمر سے ٹپکتا ہوا میری ٹانگوں سے میرے پاو ¿ں تک پہنچ گیا تھا۔ موت کو مات دینے والا سابق فوجی افضل 50سال پرانی جنگ کی آپ بیتی ایسے بتا رہا تھا کہ مانو جیسے کوئی فلم سامنے چل رہی ہو اورساتھ میں اس کی کمنٹری بھی ۔
نرس نے بھائی کی طرح خدمت کی۔
ادھر دارالحکومت سری نگر کے قریب ضلع اننت ناگ کے پہلو گاو ¿ں میں افضل کو ایک شہید کے طور پر سلام کیا جا رہا تھا اور ادھر لیہہ کے ہسپتال میں زندگی کی جنگ لڑ رہے افضل ہسپتال کی نرسوں کو دنمیں سینکڑوں بار سلام کیا کرتا تھا۔ یہ جوان جو بھاری گولہ بارود کے ساتھ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے دشمن سے لڑتا رہتا تھا ، اس حالت میں تھا کہ کسی رفع حاجت کےلئے بھی کسی کے سہارے کی ضرورت تھی ۔ کھانے پینے سے لے کر نہانے اور افضل کے کپڑے بدلنے تک کا سارا کام ہسپتال میں نرسیں خوش دلی سے کرتی تھیں۔ محمد افضل ہسپتال میں گزارے گئے وقت کو یاد کرتے ہی بہت جذباتی ہو جاتے ہیں۔کہتے ہیں ، “کوئی بھی محبت کے ساتھ اتنی خدمت کوئی اپنا سگا ہی کر سکتا ہے۔ وہ میری ایسی خدمت کرتی تھیں جیسے میں ان کا بھائی ہوں۔ ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ میں مشکل سے اپنی جان بچا سکا ہوں۔ اگر گولی ذرہ برابر بھی ادھر ادھر ہوتی تو یہ میری ریڑھ کی ہڈی کو لگتی۔ ایسی صورتحال میں اتنے دن وہاں رہ کر میرے لیے زندہ رہنا ناممکن تھا۔
ایمان کی زندہ مثال
یہی نہیں ، جب میں نے تھوڑا سا ہوش سنبھالا اور اپنے گھر کے بارے میں بتایا تو نرس نے مجھے 4000 روپے دینا چاہے اور کہا کہ اسے رکھو اور جب چاہو اسے واپس کردینا۔ یہ کہتے ہوئے 65 سالہ محمد افضل کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ اس نے کہا ، ‘میں نے سوچا کہ اگر میں پیسے بھی لے لوں تو میں اسے کیسے واپس کروں گا؟ اس وقت بھیجنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا۔ تب میری بہن مجھے بے ایمان سمجھے گی۔ میں نے اسے کہا ، “میرے CO کے پاس میرا پیسہ محفوظ ہے ، فکر مت کرو۔” ڈاکٹروں اور نرسوں کی محنت رنگ لائی اور محمد افضل صحت مند ہو گئے۔ انہیں کچھ دوسرے فوجیوں کے ساتھ لیہ سے ہوائی جہاز کے ذریعہ سرینگر لایا گیا۔ افضل کا کہنا ہے کہ ‘میں پہلی بار جہاز میں بیٹھا تھا’۔ افضل کو گاو ¿ں پہنچتے دیکھ ہر کوئی حیران تھا۔ کسی کو بھی اس کے زندہ رہنے کا یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔لیکن اس سپاہی افضل کی زندگی میں ابھی مزید اتار چڑھاو ¿ دیکھنے کو تھے ، جو اپنی ماں کی موت کے بعد اپنا گھر چھوڑ کر 18 سال کی عمر میں بھاگ گیا تھا۔ پڑھائی لکھائی تودور ،اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ افضل کہتے ہیں ، “صاب جی ، فوج میں شامل ہونے کے بعد تین ماہ تک میں نے اپنی تنخواہ انگوٹھا لگا کر لی ہے۔