دلچسپ کردار کے مالک 1971 کی جنگ کے ہیرو محمد یوسف خان

342
محمد یوسف خان
محمد یوسف خان

دسمبر کے وسط میں ، جب دن کے وقت بھی مینڈر میں سخت سردی ہوتی ہے ، پھر اسی سخت سردی میں ایک دن آدھی رات کے بعد جموں و کشمیر ملیشیا کے جوانوں کو حکم دیا گیا کہ پاکستانی سرحد پر تعینات بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے جوانوں کی جگہ لینی ہے کیونکہ ان کو واپس بلایا جانا ہے ۔ جس کے پاس جو بھی رسد پانی ہو اسے اپنے ساتھ اٹھائیں اور چل دیں۔ ان ملیشیا سپاہیوں میں محمد یوسف خان بھی شامل تھے جو صرف تین سال قبل ہی فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ یہ محاذ پر اس کی پہلی کارروائی تھی۔

محمد یوسف خان
محمد یوسف خان جب فوج میں شامل ہوئے تھے

مینڈر سے گلپور پہنچے لیکن یہاں انہیں مزید نقل و حرکت کے لیے منع کر دیا گیا۔ 24 دن تک اس فورس نے یہاں جھاڑیوں میں چھپ کر گزارے۔ آس پاس کے دیہات میں رہنے والے لوگوں نے کھانے کا انتظام کیا کیونکہ پیچھے سے آنے کی کوئی صورت حال نہیں تھی۔ اس کے بعد اس نے خود ایک خول خندق بنائی۔ چھ سپاہیوں کی پارٹی کے پاس 2 آر سی ایل بندوقیں تھیں۔ یہاں دشمن کی گن پوزیشن اونچائی پر تھی۔ پونچھ پہنچنے کے لیے وادی کرشنا جانا تھااور ندی پار کرنی تھی ۔ ایک افسر نے دونوں سروں پر رسی بندھوائی ۔ اس کے بعد فوجیوں نے کمر میںبندھی بیلٹ میں رسی پھنسائی اور پھر ٹانگیں پھنسا کر ندی پار کی گئی۔

محمد یوسف خان
محمد یوسف خان

رائفل مین محمد یوسف خان شروع میں اس کارروائی سے بہت خوفزدہ تھے۔ وہ کہتے ہیں ، “ہمارے لیے فضائی دفاع اچھا تھا۔ ہندوستانی فضائیہ کے طیارے اس طرح بم برسا رہے تھے گویاآسمان سے اولے گر رہے ہوں۔ بم گرنے کے بعد کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ میرا تو کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ یہ پہلی بار دیکھا تھا لیکن تھوڑی دیر بعد ہم بھی اس کے عادی ہو گئے۔ فورس آگے بڑھی اور ناگی ٹیکری چوکی پر پہنچ گئی لیکن چوکی خالی تھی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہاں ایک گرودوارہ تھا۔ فوجی دستے نے اسی میں پڑاﺅ ڈالا۔ 16 دسمبر کو جنگ بندی ہونے کے بعد فورس کو واپس بلا لیا گیا۔ ان کی فورس ادھم پور واپس آگئی۔

محمد یوسف خان کا سابق فوجی بیٹا لطیف خان
محمد یوسف خان کا سابق فوجی بیٹا لطیف خان

جموں و کشمیر کے بڈگام کے کھاگ گاو ¿ں کے رہنے والے محمد یوسف خان سات بہن بھائیوں میں سے ایک ہیں۔ وہ فوج میں شامل ہونے والے اپنے خاندان پہلے شخص تھے ، لیکن ان کی اس روایت کو ان کے دو بیٹوں میں سے ایک محمد لطیف نے جاری رکھا۔ آٹھویں پاس لطیف بھی فوجی بنے اور ان کی بھی رجمنٹ جموں کشمیر لائٹ انفنٹری (JAK LI) تھی۔ 1994 میں فوج میں شامل ہوئے ، لطیف 16 سال فوجی خدمات انجام دینے کے بعد وطن واپس آئے۔ لطیف کا کہنا ہے کہ وہ مزید خدمت کرنا چاہتا تھا لیکن جلد کی بیماری کی وجہ سے اسے اتنی پریشانی ہوئی کہ فوج چھوڑنی پڑی۔ یہی نہیں محمد یوسف خان کے دونوں داماد بھی فوجی میں ہیں۔

محمد یوسف ، جو کشمیر ، کشمیریت اور ہندوستانی قدیم تاریخ کے بارے میں نہایت دلچسپی کے ساتھ بتاتے ہیں، وہ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود مختلف مسائل پر اتنا علم رکھتے ہیں، انھیںایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا بھی کہا جا سکتا ہے۔ محمد یوسف کا کہنا ہے کہ 1971 میں جیک ملیشیا نے اتنا اچھا کام کیا کہ اسے باقاعدہ فوج میں تبدیل کرکے جموں و کشمیر لائٹ انفنٹری (جے اے کے ایل آئی) میں شامل کر دیا گیا۔ محمد یوسف 1967 میں 20 سال کی عمر میں فوج میں شامل ہوئے تھے۔

محمد یوسف خان کا سابق فوجی بیٹا لطیف خان اور اس کا خاندان
محمد یوسف خان کا سابق فوجی بیٹا لطیف خان اور اس کا خاندان

فوج میں اپنے اس کام کو بہت یاد کرتے ہیں جب انہیں لیفٹیننٹ جنرل کے وی کرشنا راو ¿ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملاتھا۔ یوسف خان کا کہنا ہے کہ وہ ایک شخص کی حیثیت سے ان سے پیار حاصل ہو اتھا اور چند مواقع پر رائفل مین محمد یوسف نے اپنی بساط سے باہر جاکر بھی ان سے کچھ کہنے کی جرات کی تب جنرل راو ¿ پریشان تھے اور کسی مسئلے پر تناو ¿ میں تھے ، پھر بھی انہوں نے میرے اس قدم کو نظر انداز کیا۔ (جنرل کے وی کرشنا راو ¿ اس کے بعد چیف آف آرمی سٹاف بنے اور دو بار جموں و کشمیر کے گورنر بھی رہ چکے ہیں)۔

محمد یوسف خان سکم کے ہندوستان میں الحاق سے قبل وہاں کے راجا کو حراست میں لئے جانے کے لیے کئے جانے والے فوجی آپریشن کی تفصیلات نہایت دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں ۔